یادگارسلف،نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند اورمعروف ادیب سید عبدالقدوس اطہر نقوی کا سانحۂ ارتحال

یادگارسلف،نائب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند اورمعروف ادیب
سید عبدالقدوس اطہر نقوی کا سانحۂ ارتحال

دہلی:۸؍مئی۲۰۲۴ء؁
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند سے جاری ایک اخباری بیان میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی نے جماعت اہل حدیث کی بزرگ ترین شخصیت،معروف ادیب وقلمکار،میدان صحافت کے شہسوار، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہندکے نائب امیر اوراس کے آرگن پندرہ روزہ جریدہ ترجمان کے ایڈیٹرسید عبدالقدوس اطہرابن احمدنقوی کے سانحۂ ارتحال پر گہرے رنج وافسوس کا اظہار کیا ہے اوران کی موت کو جماعت وجمعیت نیزملک وسماج کا عظیم خسارہ قرار دیا ہے جوآج سہ پہرتین بجے دن دینی، دعوتی ،تصنیفی،صحافتی خدمات سے بھرپورزندگی گزارکرطویل علالت کے بعدتقریبانواسی سال کی عمر میںحال مقیم غفورنگر،اوکھلا،نئی دہلی میںاپنے مولائے حقیقی سے جاملے ۔اناللہ واناالیہ راجعون
امیرمحترم نے کہا کہ آپ کے اجداد امروہہ کے شیعہ خاندان سے تھے۔ ہمایوں بادشاہ کے زمانہ میں سہسوان آکر آباد ہوئے۔ آپ کے اجداد میں مولانا عبدالشکور قاضی القضاۃ تھے۔ پردادا انگریز حکومت کے دور میں تحصیلدار تھے۔ دادا مولانا محمد اسحاق اور والد گرامی مولانا تقریظ احمد اپنے دور کے نامی گرامی علماء جماعت میں سے تھے۔ آپ کا خاندان سید اسماعیل شہید ؒ کے دور میں مسلک کتاب وسنت سے وابستہ ہوا۔ اہل خاندان کے بہت سے علماء نواب بھوپال کے ہاں دینی خدمات پر مامور تھے۔
مرحوم ۲۳؍اگست ۱۹۳۵؁ء میںمردم خیز سرزمین ہسوان کے اسی علمی، دینداراورموحدخاندان میں پیداہوئے اور خالص دینی وعلمی ماحول میں نشوونماپائی ۔بتدائی تعلیم سہسوان کے اسلامیہ مکتب میں حاصل کی۔ پھر وہاں سے مرادآباد اپنے تایا کے پاس چلے گئے، جو مسجد ملاقاسم مرادآباد میں پیش امام تھے۔ انہیں کے پاس رہ کر پانچ سال تک مدرسہ امدادیہ اور مدرسہ شاہی مرادآباد کے عصری علوم کے شعبہ میں داخلہ لے کر انگریزی تعلیم حاصل کی۔ وہاں کے اساتذہ میں ماسٹر عبداللہ اطہر (مقامی) ماسٹر محمد سعید (مقامی) ماسٹر نسیم احمد (مقامی) ہیڈ ماسٹر محمد طفیل (مقامی) کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ ماسٹر عبداللہ اطہر کی تعلیم وتربیت نے آپ کو بہت متاثر کیا اسی لیے آگے چل کر اپنا تخلص ہی اطہرؔ رکھ لیا۔ وہیں کے مڈل اسکول میں ساتویں تک تعلیم حاصل کی۔
۱۹۴۹ء میں آپ کے تایا بغرض علاج پٹنہ چلے گئے تو آپ وطن مالوف سہسوان لوٹ آئے۔ اس دوران دہلی کے حالات سدھرنے کے بعد دہلی پہنچے اورمحلہ کشن گنج میں ماسٹر عبداللہ المحض سے ۲ سال انگریزی ٹیوشن پڑھا۔ مولانا نور محمد قریشی سے پڑھ کر پنجاب یونیورسٹی شملہ (سونی) سے منشی فاضل کا اور دوسرے سال ادیب فاضل کا امتحان دیا اورپوری یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کچھ وقفہ کے بعد پنجاب یونیورسٹی ہی سے ایف اے اور بی اے کا امتحان پاس کیا۔
دوران ملازمت اپنے مخلص اور دیرینہ رفیق پروفیسر عبدالودود اظہر کے مشورہ سے ۱۹۶۲ء میں لائبریری کا ڈپلوما کیا، پھر ۱۹۶۵ء میں دہلی یونیورسٹی سے ایم اے (فارسی) کا بھی امتحان دیا۔ ان دونوں امتحانوں میں پروفیسر صاحب نے ہرطرح کی مادی ومعنوی مدد فرمائی۔ انہوں نے ازراہِ محبت موصوف کے تخلص کے وزن پر اپنا تخلص اظہر رکھ لیا۔ چنانچہ آپ دونوں کافی عرصہ تک مسٹر ط-ظ کے نام سے مشہور رہے۔
مذکورہ امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد ایک سال تک ہمدرد میں بحیثیت ملازم رہے۔ پھر ۱۹۵۸ء میں دہلی کارپوریشن میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ۳۵ سال تک خدمت انجام دینے کے بعد ۱۹۹۳ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔


لکھنے پڑھنے کا باقاعدہ سلسلہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد ماہنامہ ’’التوعیہ‘‘ سے شروع کیا۔ پھر اخبار اہل حدیث، جریدہ ترجمان، افکار عالیہ، الجمعیت، دعوت میں بھی مضامین چھپنے لگے۔ان کے اداریے ماہنامہ التوعیہ کے ہوں یا جریدہ ترجمان کے، لوگ بڑی بے صبری سے ان کا انتظار کرتے تھے۔ انگریزی زبان میں انگلش پرچوں کے مراسلاتی کالم میں بھی لکھا۔کتب بینی کا بچپن ہی شوق تھا۔ اس لیے مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ معلومات کا خزانہ تھے۔ اداریہ لکھنے بیٹھتے تو وہ کتابی شکل اختیار کرلیتا۔ بہت ہی اچھے ادیب اور کہنہ مشق شاعر تھے۔آپ کی تصنیفات میں نہضت حق (شعری مجموعہ) ، جواں تھا ابھی عارف (شعری مجموعہ)جو اپنے ۲۸ سالہ جواں سال بیٹے عارف کے ۶؍فروری ۱۹۹۴ء میں انتقال کے غم میں کہی گئی ہیں،چراغ منزل (شعری مجموعہ) ، شعلۂ احساس (شعری مجموعہ) ، دیار حرم (شعری مجموعہ) ، آخری نوحہ (شعری مجموعہ)،مسکت جواب: ایک دیوبندی مفتی کے بیان کے رد میں، فکر اقبال، ، The Salafiz History of Ahle Hadees in India، صفۃ صلاۃ النبی کا انگریزی ترجمہ (The Prayers)، Umar Bin Abdul Azeez (Assay)،کتاب ’’محاسن اسلام‘‘ کا انگریزی ترجمہ Merits of Islam، (دین خالص کے مشعل بردار) ٹارچ بیررز آف پرسٹنس فیتھ۔قابل ذکرہیں۔آپ نے Mohammad Allah’s Messenger اور سیرت کی کتاب عمر بن عبدالعزیز خلیفہ راشد مرتب کی ہے ۔
موصوف دل کے مریض تھے، ایک بار اینجو پلاسٹی سرجری ہوچکی تھی۔آپ ہر طرح سے آزاد ہیں اور صرف قلم و کاغذ سے یارانہ رہ گیاتھا، لاغر اور کمزور ہوچکے تھے ۔کافی عرصہ سے بینائی بھی چلی گئی تھی لیکن اس کے باوجود لکھنانہیں چھوڑاتھا۔ تین لڑکے باحیات ہیں اورتینوں ہی اپنے اپنے مجال کار میں مصروف عمل ہیں۔
آپ کافی عرصہ سے جمعیت اہل حدیث ہندسے وابستہ تھے اور اس کی مجلس عاملہ وشوریٰ کے رکن رہے ۔اس کے پروگراموں میں برابر شرکت کرتے۔ہم نے اپنی زندگی میں ایسا مخلص ، محنتی اور زہد و ورع و تقویٰ شعار انسان کم ہی دیکھا ہے۔ کسی بھی حال میں جمعیت کی مجالس و پروگراموں میں چائے تک پینا گوارا نہ تھا۔ دن بھر بھوکے رہ جاتے مگر نہ پانی لیتے اور نہ چائے کو ہاتھ لگاتے۔ بسا اوقات آپ مالی بحران کا شکار ہوئے ، کئی آپریشن کرائے، مقروض ہوئے یا علاج معالجہ میں تاخیر ہوئی مگر مدد اور تعاون، باوجود پیش کش قبول نہیں فرمایا اور ضد کرنے پر رکھ تو لیا مگر جوں کا توں واپس کردیا۔ فریوائی ایوارڈ کی سند بھی قبول نہیں کررہے تھے۔ بڑی مشکل سے سند و شہادہ قبول کرلی مگر رقم قبول نہیں کی۔ کئی کام جمعیت کے کیے لیکن ان کاموں کی اجرت یا نذرانہ جو حق تھا قبول نہ کیا۔ اداریہ لکھتے رہے لیکن ایک پیسہ نہیں لیا۔الغرض ؎
فقیری میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے در سے بخشش کا نہ تھا یارا
آپ کومرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کانائب امیر بھی منتخب کیاگیا اورکافی عرصہ اس منصب پر فائز رہ کر اپنے گرانقدرتجربات سے جمعیت کو فائدہ پہنچاتے رہے اورکبھی کسی خدمت کا اصرار کے باوجومعاوضہ نہیں لیابلکہ اگر اصرارکیاجاتاتو ناراضگی کا اظہارکرتے اورفرماتے کہ ہم نے جمعیت کے لیے کیاہی کیاہے۔
آپ ایک صاحب طرز ادیب اورکہنہ مشق شاعرتھے اورکئی زبانوں پر یکساں عبور رکھتے تھے۔آپ بڑے ہی خلیق وملنسار اور متواضع تقویٰ شعاری ،زہد وورع میں اپنی مثال آپ تھے۔بلاتفریق مذہب ومسلک عوام وخواص میںیکساں مقبول تھے۔جمعیت وجماعت کی تعمیر وترقی کے لیے ہمہ وقت فکرمند اور کوشاںرہتے تھے ۔جماعت وجمعیت کے لیے ان کی گراں قدرخدمات قابل قدرو ناقابل فراموش نیزنئی نسل کے لیے مشعل راہ ہیں۔ان کی وفات نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ پوری جماعت وجمعیت اورملک وسماج سب کا بڑاخسارہ ہے۔
پسماندگان میں تین بیٹے محمدآصف، محمد خالد اور عبدالحمید صاحبان ،بیٹیاں فیروز سلطانہ،سعیدہ مریم اورمتعددپوتے وپوتیاں اورنواسے ونواسیاں ہیں۔ ہم ان کے اہل خانہ کے غم میں برابرشریک ہیں۔اوردعاگوہیںکہ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے جنت الفردوس کا مکین بنائے، جملہ پسماندگان ومتعلقین کو صبرجمیل کی توفیق بخشے اورجماعت وجمعیت کو ان کا نعم البدل عطاکرے۔آمین
تدفین آج ہی بعد نماز عشاء قبرستان بٹلہ ہاؤس،اوکھلا میں عمل میں آئے گی۔ان شاء اللہ
امیرمحترم کے علاوہ ناظم عمومی مولانامحمدہارون سنابلی،ناظم مالیات الحاج وکیل پرویز ، نائب امیرحافظ عبدالقیوم، نائبین ناظم عمومی مولاناریاض احمدسلفی، مولانامحمدعلی مدنی، حافظ محمدیوسف چھمہ ودیگرذمہ داران وکارکنان جمعیت نے ان کے پسماندگان ومتعلقین نیزجملہ سوگواران سے اظہار تعزیت کیا ہے اور ان کے لئے مغفرت اوربلندیٔ درجات کی دعاکی ہے۔

Spread the love