طلاق ثلاثہ اور حلالہ سے متعلق فتویٰ

استفتاء نمبر (۲۸۲۹)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین تین طلاق اور حلالہ کے بارے میں؟
براہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ عین کرم ہوگا۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ
سائل
شمیم اختر
لال کنواں، دہلی-6

جواب نمبر (۵۹۱۵)
طلاق ایک مباح عمل ہے۔ اس کا ارتکاب کرنے سے عورت مرد کے نکاح سے باہر ہو جاتی ہے۔ اسلام نے اس کی اجازت شوہر یا شوہر کے وکیل کو ایسی ناگریزحالت میں دی ہے جب زوجین کے مابین باہمی الفت و محبت اورسکون و طمانیت کی جگہ اختلاف و افتراق اور نفرت و کد ورت نے لے لی ہو اور شوہر اپنی تا دیبی مراحل اور فریقین باہمی صلح ومصالحت کی پوری کوشش کر چکے ہوں اور آخری علاج کے طور پر طلاق کے علاوہ اب کوئی اوردوسرا راستہ نہ ہوتو اس نازک موقع پر اسلام نے مرد کو اختیار دیا ہے کہ وہ شرعی حدود و تعلیمات کی روشنی میں نہایت خوش اسلوبی سے سنت نبویہ کے مطابق اپنی عورت کو طلاق دیدے ،تا کہ ہر ایک خوشگوار اور پر سکون زندگی کی راہیں تلاش کر سکے۔
سنت نبویہ کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو حالت طہر (حیض و نفاس کے ایام کے علاوہ) یا حالت حمل میں ایک طلاق رجعی دے۔ بشرطیکہ اس طلاق والے طہر(پاکی) میں دونوں ہمبستر نہ ہوئے ہوں، اور نہ مرد نے جبرو اکر اہ، نشہ وجنون اور کسی دماغی خرابی کی وجہ سے طلاق دیا ہو۔
اس طور پر طلاق دینے کے بعد تمام علماء کے نزد یک دوران عدت( تین حیض یا تین ماہ ) زوجین کے مابین آپسی رضا و رغبت سے شوہر رجوع کر سکتا ہے۔ نیز عدت گزر جانے کے بعد بھی اگر زوجین ازدواجی تعلقات دوبارہ بحال کرنا چاہیں تو تمام علماء کے نزدیک نکاح جدید اور مہر جدید سے دوبارہ ایساکر سکتے ہیں۔
لیکن اس مسنون طریقہ کو چھوڑ کر ایک ہی مجلس میں متعدد بار طلاق دینے کا جو خود ساختہ طریقہ رواج پا چکا ہے وہ علماء اسلام کے مابین ایک زبر دست اختلافی اور نزاعی مسئلہ رہا ہے کہ اس صورت میں کیا ایک رجعی طلاق واقع ہوگی یا تین ( طلاق مغلظہ )؟ کتب حدیث کے نصوص صحیحہ و صریحہ نیز علماء محد ثین کی صحیح اور راجح رائے کی روشنی میں یکجائی تین طلاق ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ. (رواہ مسلم :کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)
یعنی دور نبوی اور دور صدیقی حتی کہ فاروقی دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق ( رجعی ) ہی شمار ہوتی تھی۔اس حکم کی تائید و تقویت مندرجہ ذیل آیتوں سے بھی ہوتی ہے ۔ارشاد باری ہے:
(1) اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاک’‘بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْح’‘ بِاِحْسَانٍ (البقرہ:229) یعنی طلاق( جس کے بعد قولی یا تحریری یا فعلی طور پررجوع کئے جانے کی گنجائش باقی رہتی ہے وہ ) صرف دو ہی مرتبہ ہے۔ اس کے بعد یا تو عورت کو خوش اسلوبی کے ساتھ رکھا جائے یا بھلائی کے ساتھ علائدہ کر دیا جائے۔
(۲) اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ( الطلاق:1 ) یعنی عورتوں کو طلاق دینا چا ہو تو انہیں عدت گزاری کا موقع دیتے ہوئے طلاق دو۔
ان مذکورہ نصوص شرعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ طلاق نا گزیر حالت پیدا ہونے پر دینا ایک مباح فعل ہے۔ البتہ اس کے استعمال کے وقت سنت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک پر اکتفا کرنا چاہیے ،تا کہ دورن عدت باہمی رضا ورغبت پر رجعت اور عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ ازدواجی رشتہ نکاح جدید ومہر جدید کے ذریعہ با تفاق علماء قائم کیا جانا سہل وآسان ہو۔ اور بیک وقت تین طلاق کا ارتکاب کر کے زنا بصورت حلالہ مروجہ کا فتوی حاصل کرنے سے اجتناب کیا جا سکے جس کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: لعن رسول اللہ المحلل والمحلل لہ (احمد، نسائی، ترمذی) یعنی رسول ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور کرانے والے ہر ایک پر لعنت بھیجی ہے۔
دوسری جگہ حدیث میں حلالہ کرنے والے کو منگنی کا سانڈ کہا گیا ہے ارشاد نبوی ﷺ ہے: الا اخبرکم بالتیس المستعار قالوابلی یا رسول اللہ قال؛ فھو المحلل لعن اللہ المحلل والمحلل لہ (ابن ماجہ الحاکم)
کیا میں آپ لوگوں کو منگنی کے سانڈ کے متعلق نہ بتلاؤں؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ﷺ !آپﷺ نے فرمایا: وہ حلالہ کرنے والا شخص ہے۔ اللہ تعالی حلالہ کرنے والے ا ورکرانے والے ہر ایک پر لعنت بھیجی ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح اسلام سمجھے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(مفتی جمیل احمدمدنی)
مورخہ: 15؍فروری 2024
مجلس تحقیق علمی
مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند

Spread the love